رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : ”پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جانو :بڑھاپے سے پہلے جوانی کو ، بیماری سے پہلے تندرستی کو ، فقر وافلاس سے پہلے رزق کی کشادگی کو ، مصروفیت سے پہلے فرصت یا فراغت کو اور موت سے پہلے زندگی کو ‘‘ (شرح السنہ للبغوی :4021)۔ اس حدیثِ مبارک کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر کسی نعمت کی فراوانی کر ے تو اسے اس کی قدر کرنی چاہیے اور اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

تشکرِ نعمت کا ایک طریقہ یہ ہے کہ زبان سے سپاس گزار بنے اور حقیقتِ شکر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کو اس کی ہدایت کے مطابق اس کی رِضا اور بندگی میں استعمال کرے ۔ مثلاً عالَمِ شباب میں انسان قوت و توانائی سے معمور ہوتاہے ، کسی بھی کام میں محنت و مَشقت کرنا اس کے لیے آسان ہوتا ہے ، لہٰذا اسے چاہیے کہ اپنے عالَم شباب کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزارے ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے جن بندوں پر اپنی خصوصی رحمت کا سایہ فرمائے گا ان میں سے ایک طبقہ ان نوجوانوں کا ہے جنہوں نے جوانی کے آغازہی سے اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں بسر کی ہو‘‘ (شعب الایمان للبیہقی : 549)۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ جوانی میں انسان کی حیوانی ، شہوانی ، بہیمی اور غضبانی قوتیں اپنے عروج پر ہوتی ہیں اور اس کے بہکنے اور بھٹکنے کا احتمال زیادہ ہوتا ہے ، ایسے میں اگر کوئی اپنی ان امکانی صلاحیتوں (Potentials)کو شریعت کی لگام دے کر ملکوتیت کے تابع کردے اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کی راہ پر ڈال دے ، تو ایسا بندہ اللہ کو نہایت محبوب ہوتا ہے ۔ ان تمام قوتوں کے ڈھل جانے اور بعض صورتوں میں زائل ہوجانے کے بعد جو بندے رب سے رجوع کرتے ہیں تو وہ اس محاورے کا مظہر بن جاتے ہیں: ”گداگر تواضع کند ، خوئے اُوست ‘‘، یعنی گداگر کے لیے عاجزی اختیار کرنا اس کی ضرورت بلکہ مجبوری ہے ،

کیونکہ اگر وہ عاجزی نہیں کرے گا تو اسے بھیک کون دے گا؟۔اس کے بر عکس انسان لینے کی نہیں بلکہ دینے کی پوزیشن میں ہے اور عاجزی اختیار کرے تو یہ اس کی خوبی ہے اوراس کا کمال ہے ۔اور کردار کی اس عظمت کے حامل بندے کم ملتے ہیں ، اسی لیے تو رب ذوالجلال نے فرمایا :”اور میرے بندوں میں سے بہت کم شکر ادا کرنے والے ہیں ‘‘ (سبا : 13)
اسی طرح تندرستی کے عالم میں انسان کو اللہ کا اطاعت گزار بندہ بننا چاہیے ، صحت سے محروم ہونے کے بعد کفِ افسوس ملنے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا اور خوشحالی ، رزق کی کشادگی اور کاروبار کی وسعت کے زمانے میں اللہ کے دئیے ہوئے مال کوخوش دلی کے ساتھ اس کی راہ میں اور اس کے بندوں کی حاجت روائی میں خرچ کرنا چاہیے ۔

حدیثِ پاک میں ہے :”ابن آدم کو قیامت کے دن اہانت آمیز حالت میں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا ، رب تبارک وتعالیٰ فرمائے گا :میں نے تمہیں (زندگی ، سالم اعضاء ، صحت اور عافیت سے ) نوازا تھا اور تمہیں (خُدّام و حِشَم اور جاہ ومال) عطا کیا تھا اور تم پر نعمتوں کی فراوانی کی تھی ، تو تم نے کیا کیا ؟ وہ عرض کرے گا : اے پر وردگار ! میں نے مال کو جمع کیا، اسے بڑھاتا رہا اور موت کے وقت پہلے سے زیادہ چھوڑ کر آیا ، مجھے واپس دنیا میں بھیج دیجیے تاکہ وہ سب مال میں تیری بارگاہ میں لا کر حاضر کر دوں ، لیکن جب بندہ (دنیا میں رہتے ہوئے ) آخرت کے لیے کچھ آگے نہ بھیجے تو وہ مال اسے جہنم میں لے جائے گا‘‘ (سنن ترمذی : 2427)‘‘۔ ایک اور حدیث میں ہے :”قیامت کے دن بنی آدم سے پانچ سوالات ہوں گے : عمر کیسے گزاری ، جوانی کس طرح بسر ہوئی ، مال کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور جتنا دین جانتا تھا ،اس پر کس قدر عمل کیا ؟‘‘(سنن ترمذی : 2416)۔

لیکن بد قسمتی سے انسان نا شکرا ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :”اور جب ہم انسان کو کوئی انعام دیتے ہیں تو وہ (شکر ادا کرنے کی بجائے) ہم سے منہ پھیر لیتا ہے اور پہلو تہی اختیار کرتا ہے اور جب اسے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو مایوس ہو جاتاہے ‘‘ (بنی اسرائیل :83)۔ رب کے ساتھ انسان کے خود غرضی پر مبنی رویے کو قرآن نے قدرے وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا :”انسان فائدہ طلب کرنے سے کبھی نہیں تھکتا اور اگر اسے کوئی مصیبت پہنچ جائے تو (اپنے رب سے ) مایوس ہو جاتا ہے اور اگر ہم اس کو تکلیف پہنچنے کے بعد اپنی رحمت کا مزا چکھا دیں تو (خود سری کا مظاہرہ کرتے ہوئے)ضرور کہے گا : یہ تو میرا استحقاق تھا اور میں گمان نہیں کرتا کہ قیامت قائم ہوگی اور (بالفرض ) مجھے اپنے رب کے پاس لوٹا بھی دیا گیا تو یقینا وہاں بھی میرے لیے خیر ہی خیر ہوگی ‘‘۔( آگے چل کر فرمایا)”اور جب ہم انسان پر انعام کرتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور پہلو بچا کر ہم سے دور ہو جاتا ہے اور جب اس پر مصیبت آتی ہے تو وہ لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے ‘‘(حٰمٓ السجدہ 50-51)

الغرض ! اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں اور صلاحیتوں سے نوازا ہے اور بندگی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوںکواس کی بندگی اور اس کے رسول مکرم ﷺ کی اطاعت و اتباع میں استعمال کرے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ”پھر تم سے ضروراس دن ان نعمتوں کے بارے میں با ز پُرس ہو گی‘‘ (التکاثر:8)۔اور فرمایا : ”بے شک کان ، آنکھ اور دل (یعنی سننے ، دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت ) کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘(بنی اسرائیل :36) ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :”وہ بندہ کامیاب ہو گیا جس نے اپنے دل کو ایمان کے لیے خالص کر دیا ،اپنے دل کو ہر قسم کی بُری سوچ سے محفوظ کر لیا، اپنی زبان کو صدق کا عادی بنا دیا، اپنے نفس کو اللہ کی تقدیر پر مطمئن کر دیا ، اپنی فطرت کو راستی پر قائم رکھا ، اپنے کانوں کو قبولِ حق کے لیے (ہر وقت ) آمادہ رکھا اور اپنی آنکھ کو (انفُس وآفاق میں ) آیاتِ الٰہی سے عبرت حاصل کرنے کے لیے کھلا رکھا اور آنکھ اور کان (حق کے داخل ہونے اور حق کے پیغام کو سننے کا ) راستہ ہے اور دل جن حقائق کا ادراک کرتا ہے آنکھ ان کے لیے جائِ قرار ہے اور جس نے اپنے دل کو حق کا محافظ بنا دیا وہ فلاح پا گیا‘‘ (شعب الایمان للبیہقی : 108)۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے مجھے نو باتوں کا حکم فرمایا ہے : یہ کہ ظاہری اور پوشیدہ دونوں حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی خَشیت دل میں رہے ، غضب اور رضا دونوں حالتوں میں عدل کو قائم رکھیں ، رزق کی فراخی او ر تنگی دونوں حالتوں میں میانہ روی کو اختیار کروں ، جو مجھ سے تعلق توڑے میں اس سے رشتہ جوڑے رکھوں ، جو اپنے اچھے حالات میں مجھے نہ دے ، میں اس کے برے حالات میں اسے عطا کروں اور جو مجھ پر زیادتی کرے ،میں اسے معاف کردوں ‘‘ (مشکوۃ المصابیح :5338)۔ انسان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بے حد و بے حساب ہیں ، فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ”اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنے لگو تو شمار نہیں کر پاؤ گے ‘‘ (النحل : 18)۔ حدیثِ پاک میں فرمایا : ”انسان کے ہر ہر جوڑ پر صدقہ (یعنی شکر ادا کرنا )واجب ہے‘‘(بخاری : 2560)۔سو جب انسان ایک بار حرکت کرتا ہے ، اٹھتا بیٹھتا ہے یا چلتا پھرتا ہے یا زندگی کے کام کاج کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس جسمانی مشینری کے 360جوڑ حرکت میں آتے ہیں اور اگر یہ جوڑ خدا نخواستہ کام کرنا چھوڑ دیں تو سانس کا سلسلہ جاری رہنے کے باوجود مفلوج (Paralyzed)انسان لکڑی کے شہتیر کی طرح بے حس وحرکت پڑا رہتا ہے اور

اپنی کوئی بھی طبعی ضرورت پورا کرنے کے قابل نہیں رہتا بلکہ دوسرو ں کا محتاج ہوتا ہے ۔ لیکن تندرستی کے عالم میں انسان کو اللہ تعالیٰ کی ان بے پایاں احسانات کا ذرا بھر احساس نہیں ہوتا ۔
اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتِ مال ہو ، نعمتِ جمال ہو یا نعمتِ علم ودانش ہویا نعمتِ صحت و سلامتی ہو یا نعمتِ جاہ و اقتدار ہو ، یہ نعمتیں اس شخص کے لیے انعام قرار پاتی ہیں جو انہیں مُنعِمِ حقیقی رب تبارک وتعالیٰ کی رضا میں استعمال کرے ، لیکن جو ان نعمتوں میں سر شار ہو کر بدمستی کے عالم میں انہیں اس کی نافرمانی میں استعمال کرتا ہے تو یہ اس کے لیے ابتلا و آزمائش کے لیے آتی ہیں اور آخرت میں ایک ایک چیز کا اسے حساب دینا ہوگا ۔ لہٰذا لازم ہے کہ زوالِ نعمت سے پہلے اس حقیقت کو پا لے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :”اور جوکچھ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے ، اس میں سے کچھ (ہماری راہ میں ) خرچ کردو ، اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے (فرشتۂ اَجل سر پر کھڑا ہو) پھر وہ کہے کہ اے میرے رب !تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت کیوں نہ دیدی کہ میں صدقہ دیتا اور نیکوں میں سے ہو جاتا ‘‘(المنافقون : 10)

Leave a Comment