راتوں رات امیر ہونے کا نسخہ ، یہ ایک سورۃ بس ایک دن پڑھنی ہے ،تیسرے دن انشا اللہ دنیا بدل جائے گی

راتوں رات امیر ہونے کا نسخہ ، یہ ایک سورۃ بس ایک دن پڑھنی ہے ، 3تیسرے دن انشا اللہ دنیا بدل جائے گی ، فوری اثر معجزاتی وظیفہ ۔۔۔بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ راتوں رات امیر ہوجائیں کون نہیں چاہتا ہے کہ اس کی زندگی میں ہر آسائش ہو ۔آج کا وظیفہ بہت خوبصورت ہے ہر آسائش کو جو آپ چاہتے ہیں ۔ یہ سورۃ الرحمٰن ہے اس سورت کی تلاوت کا الگ ہی اثر ہے ایسا اثر ہے کہسننے والے پر

بے حدخاموشی اور رکعت طاری ہوجاتی ہے اس کی تفسیر ہے یہ سورت اپنے حسن عبارت اور عمدہ طرز ادائیگی میں دلہن کی آراستہ اور پیراستہ اور معین ہے اس کا عمل جو بھی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو بے پناہ دولت عطاء فرمائیں گے جو اس نیت سے کرے یا پاک پرور دگار جس طرح سے آپ نے اس کو مزین وآراستہ کیا ہے اس طرح سے میری زندگی کو بھی مزین وآراستہ فرمائیں ہر وہ آسائش جس کی طلب رکھتا ہوں وہ بضرور عطاء فرمائیں انشاء اللہ آپ کی وہ حاجت پوری ہوگی ۔ اس سورت کے حوالے سے فرمایا جاتا ہے یہ حاجت روائی کیلئے بہت اکثیر ہے ۔ جو وظیفہ آپ سے ذکر کررہے ہیں وہ وظیفہ نہایت آسان ہے ۔ آپ نے سورۃ الرحمٰن کو آپ نے روزانہ کی بنیاد پر کسی بھی وقت آپ نے اول وآخر تین مرتبہ درود شریف پڑھنے کے بعدتین مرتبہ سورۃ الرحمٰن کو پڑھنا ہے پڑھنے کے بعد

اپنی بھلائی کا جس طرح سے ذکر کیا ہے اسی طرح سے دعا کرنی ہے ۔ انشاء اللہ اکابرین کا کہنا ہے کہ گیارہ دن کے ا س عمل سے ہی اللہ پاک آپکی زندگی کی کایہ پلٹ دیںگ ے ہر وہ چیز عطاء فرمائیں گے جس کی آپ خواہش رکھتے ہیں ۔ قرآن پاک سے بڑھ کر نورانیت کی کوئی چیز نہیں ہے جو اس نقل سے اس نیت سے اللہ سے مانگے کہ یا اللہ میری زندگی کو اس طرح سے مزین آراستہ فرمائیں۔ جب انسان محبوب کا سب سے پیارہ بندہ بننا چاہتا ہے تو اس کی مرغوب چیز اس کو مہیا کرتا ہے پہاڑوں سے دودھ تک کی نہریں نکال لیتا ہے ۔ آقاﷺ کو سب سے زیادہ جو پسندیدہ اللہ کا عمل ہے وہ قرآن کریم کی تلاوت ہے ۔ حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کے بارے میں فرمایا جاتا ہےخواب میں اللہ تعالیٰ کی زیارت ہوئی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے فرمایا یا پاک پروردگار آپ کا سب سے پسندیدہ عمل کیا ہےجس کے

ذریعے سے آپ بندوں سے راضی ہوجاتیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن کریم کی تلاوت ہے یا اللہ کیا سمجھ کر یا بغیر سمجھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا سمجھے بے سمجھے جس طرح بھی کوئی انسان قرآن کریم کی تلاوت کرے گا وہ میر ا پسندیدہ بندہ بن جائیگا ۔دنیا کی تمام تر آثاراس پر حقیقی دنیا کے اللہ تعالیٰ ظاہر فرما دیتے ہیں اپنی خوشنودی کا پروانہ اس پر جاری فرما دیتے ہیں۔ اس اقرار کو کرتے ہوئے کہ بے شک قرآن پاک کی تلاوت سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں تو آپ اس کی تلاوت کریں سورۃ الرحمٰن کی تلاوت کریں انشاء اللہ اللہ پاک آپ پر اپنی کرم نوازیاں فرمائیں گے اور آپ کو ہر قسم کی پریشانی سے دور رکھتے ہوئے۔ دنیا کو مسخر کردیں گے ہر چیز کو آپکے آگے نچھاور کردیں گے جو اللہ سے توقع کرتے ہیں جس چیز کی اللہ سے طلب کرتے ہیں۔ہرچیز اللہ کی تسبیح کرتی ہے ساتوں

آسمان اور زمین اور جو مخلوق ان میں ہے سب اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور کوئی بھی شے ایسی نہیں جو اس کی حمد بیان کرنے کے ساتھ اس کی پاکی بیان نہ کرتی ہو لیکن تم لوگ ان چیزوں کی تسبیح کو سمجھتے نہیں بے شک وہ علم والا بخشنے والا ہے سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 44 اس آیت میں اللہ عزوجل کی عظمت کا بیان ہے چنانچہ فرمایا کہ ساتوں آسمان اور زمین اور ان میں بسنے والی ساری مخلوق اللہ عزوجل کی حمدو ثنا اور تسبیح و تقدیس میں مشغول ہے اور یاد رہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی وہ مخلوق ہے جسے اشرف المخلوقات کہا گیا ہے۔ اور اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور اپنی تسبیح کا خاص طور پر حکم فرمایا ہے بلکہ انسان کو یہ بھی بتلا دیا کہ تمہارے لئے سکون اللہ ہی کے ذکر میں ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے الا بذکراللہ تطمئن القلوب آگاہ رہو اللہ کی یاد رہو دلوں کو

اطمینان نصیب ہوتا ہے سورہ رعد آیت نمبر 28 معلوم ہوا کہ سکون اور اطمینان اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر میں رکھا ہےلیکن انسان دنیا کے اندر اس کو تلاش کرنے میں لگا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جتنا دنیا کے پیچھے بھاگتا ہے اتنا ہی زندگی میں ڈپریشن اور پریشانی بڑھتی چلی جاتی ہے اسی لئے ضروری ہے کہ سکونِ قلب حاصل کرنے کے لئے اللہ کا ذکر کثرت کے ساتھ کیا جائے اطمینان قلب ایک بہت بڑی نعمت ہے اسے دولت سے نہیں خریدا جاسکتا مادیت پرستی کے دور میں انسان سکون کے لئے بے قرار ہے اس نعمت کو حاصل کرنے کاآسان طریقہ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنا ہے اور اس کی یاد دل میں بسا لینا ہے اللہ کی یاد کے لئے جو کلمات بتائےجارہے ہیں وہ بہت ہی خاص ہیں اور ان کا خاص ہونا احادیث نبویہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے ۔ روایات میں یہ واقعہ اس طرح سے

بیان کی گیا ہے کہ ایک حبشی شخص نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم آپ ہم سے حسن صورت اور حسن رحم میں بھی ممتا ز ہیں اور نبوت و رسالت میں بھی اب اگر میں بھی اس چیز پر ایمان لے آؤں جس پر ایمان رکھتے ہیں اور وہی عمل کروں۔ جو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کرتے ہیں تو کیا میں بھی جنت میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہوسکتا ہوںنبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں ضرور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے جنت میں کالے رنگ کے حبشی سفید اور حسین ہوجائیں گے اور ایک ہزار سال کی مسافت سے چمکیں گے اور جو شخص لا الہ الا اللہ کا قائل ہو اس کی فلاح و نجات اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوجاتی ہے اور جو شخص سبحان اللہ

وبحمدہ پڑھتا ہے اس کے نامہ اعمال میں ایک لاکھ چوبیس ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں یہ سن کر مجلس میں ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جب اللہ رب العزت کے دربار میں حسنات کی اتنی سخاوت ہے تو پھر ہم کیسے ہلاک ہوسکتے ہیں۔ یا عذاب میں کیسے گرفتار ہوسکتے ہیں تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ قیامت میں بعض آدمی اتنا عمل اور حسنات لے کر آئیں گے کہ اگر ان کو پہاڑ پر رکھ دیا جائے تو پہاڑ بھی ان کے بوجھ کا تحمل نہ کر سکے لیکن ان کے ظلم کے مقابلے میں ختم ہو جائیں مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کو اپنی رحمت سے نواز دیں مفسرین نے لکھا ہے کہ اس حبشی کے سوال اور جواب پر ہی سورۃ الدھر کی یہ آیت نازل ہوئی ھل اتیٰ علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیئا مذکورا ۔

Leave a Comment