رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں۔ :ہ (Qur’an 2:141) تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
وہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی ان کے لیے ان کے عمل ہیں اور تمہارے لیے تمہارے عمل ہیں اور تم سے ان کے اعمال کی نسبت نہیں پوچھا جائے گا

رسول اللہ کا فرمان ہے۔ :ہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ مردوں کو برا نہ کہو کیونکہ انہوں نے جیسا عمل کیا اس کا بدلہ پا لیا۔ اس روایت کی متابعت علی بن جعد ‘ محمد بن عرعرہ اور ابن ابی عدی نے شعبہ سے کی ہے۔ اور اس کی روایت عبداللہ بن عبدالقدوس نے اعمش سے اور محمد بن انس نے بھی اعمش سے کی ہے۔
Sahih Bukhari – 1393 – Islam360

بعض افراد کچھ غیر مستند کتابوں کی خلاف قرآن ہدایت پر عمل پیرا ہوتے ہوۓ فوت شدہ افراد کو لعن طعن کرنا دینی فریضہ سمجھ لیا ہے جو کہ قطعی طور پر غلط’ اسلام کی روح کے خلاف اور قرآن کی تعلیم کے خلاف ہے۔ ہ
یہ گمراہ لوگ نیچے درج دو قرانی آیات کا حوالہ دے کر اپنے گمراہ کن عقیدہ کا جواز پیش کرتے ہیں: ہ

(Qur’an 9:114) وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ
اور ابراھیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش کی دعا کرنا اور ایک وعدہ کے سبب سے تھا جو وہ اس سے کر چکے تھے پھر جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ الله کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہو گئے بے شک ابراھیم بڑے نرم دل تحمل والے تھے
اس گمراہ کن عقائد والے گروہ نے اس آیت کا حوالہ اسی فورم میں کیا تھا – تفصیلی بحث کے لئے یہاں کلک کریں

(Qur’an 40:52) يَوْمَ لَا يَنفَعُ الظَّالِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ ۖ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ
جس دن ظالموں کو ان کا عذر کرنا کچھ بھی نفع نہ دے گا اور ان پر پھٹکار پڑے گی اور ان کے لیے برا گھر ہوگا
اور ابراھیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش کی دعا کرنا اور ایک وعدہ کے سبب سے تھا جو وہ اس سے کر چکے تھے پھر جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ الله کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہو گئے بے شک ابراھیم بڑے نرم دل تحمل والے تھے

حضرت ابراہیم عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ نے اپنے والد کے لئے دعا کی تھی کیوں کہ وہ نرم دل تھے اور ان کے لئے افسوس کا اظہار کیا کہ وہ جہنم کی آگ کا ایندھن بن جائنگے گا۔ انہوں نے اس باپ کے لئے بھی دعا کی جس نے اسے اسلام کے راستے سے روکنے کے لئے اسے بے دردی سے ستایا تھا۔ لکین جب اللہ نے انہیں اپنے والد کے لئے مغفرت کی دعا کرنے سے منع کیا تو انہوں نے اپنے والد کے لئے دعا مانگنے سے رک گئیے-

اس آیت یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت ابراہیم عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ نے اپنے والد کو گالیاں دینا شروع کر دیں یا ان کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا – قرآن کے خلاف چلنا آپ کی شیعہ برادری کا محبوب عمل ہے کیونکے آپ کی شیعہ برادری موجودہ قرآن کو تحریف شدہ مانتی ہے اور کہتی ہے کہ اصلی قرآن تو آپکے ہزار سال چھپے ہویے خیالی امام کے پاس محفوظ ہے
بَابُ : النَّهْىِ عَنْ سَبِّ الأَمْوَاتِ
باب: مردوں کو برا بھلا کہنا منع ہے۔

اخبرنا حميد بن مسعدة، عن بشر وهو ابن المفضل، عن شعبة، عن سليمان الاعمش، عن مجاهد، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” لا تسبوا الاموات فإنهم قد افضوا إلى ما قدموا”.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے مردوں کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ انہوں نے جو کچھ آگے بھیجا تھا، اس تک پہنچ چکے ہیں“

Leave a Comment