رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

ایمان کی بہت زیادہ شاخیں ہیں، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان جب تنہا ذکر ہو تو پورے دین اسلام کو شامل ہوگا، نبی کریم ﷺنے ایمان کی شاخیں اجمالی اور تفصیلی طورپر بیان فرمائی ہیں، اجمالی بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے’ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

عن ابي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ ” الإيمان بضع وسبعون شعبة، ‏‏‏‏‏‏والحياء شعبة من الإيمان”.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔”(1)
(1)۔ صحیح مسلم / ایمان کے احکام و مسائل / باب : ایمان کی شاخوں کی تعداد ، اور افضل اور ادنیٰ ایمان کا بیان ، اور حیاء کی فضیلت اور اس کا ایمان میں داخل ہونے کا بیان ۔حدیث نمبر: 152۔

عن ابي هريرة ، قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ ” الإيمان بضع وسبعون او، ‏‏‏‏‏‏بضع وستون شعبة، ‏‏‏‏‏‏فافضلها قول:‏‏‏‏ لا إله إلا الله، ‏‏‏‏‏‏وادناها إماطة الاذى عن الطريق، ‏‏‏‏‏‏والحياء شعبة من الإيمان” .
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ایمان کی ستر پر کئی یا ساٹھ پر کئی شاخیں ہیں ان سب میں افضل لاَ اِلہَ اِلاَّ اللہ کہنا ہے اور ادنیٰ ان سب میں راہ میں سے موذی چیز کا ہٹانا ہے اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔”(2)

(2)۔صحیح بخاری ، کتاب الایمان ، باب ” امور الایمان، حدیث :9،صحیح مسلم / ایمان کے احکام و مسائل / باب : ایمان کی شاخوں کی تعداد ، اور افضل اور ادنیٰ ایمان کا بیان ، اور حیاء کی فضیلت اور اس کا ایمان میں داخل ہونے کا بیان ۔حدیث نمبر: 153۔(الفاظ صحیح مسلم کے ہیں)

امام ابو بکر بیہقی رحمہ اللہ نے ایمان کی شاخوں میں سے ستہتر(77) شاخیں ذکر فرمائی ہیں(١)، یہ شاخیں مختصراً حسب ذیل ہیں:
1۔اللہ عز وجل پر ایمان۔
2۔انبیاء ورسل علیہم الصلاة والسلام پر ایمان۔
3۔فرشتوں پر ایمان۔
4۔قرآن کریم اور تمام آسمانی کتابوں پر ایمان۔
5۔تقدیر پر ایمان کہ بھلی بری تقدیر اللہ عز وجل کی طرف سے ہے۔
6۔یو م آخرت پر ایمان۔

7۔مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان۔
8۔لوگوں کے اپنی قبروں سے اٹھائے جانے کے بعد موقف میں اکٹھا کئے جانے پر ایمان۔
9۔اس بات پر ایمان کہ مومنوں کا ٹھکانہ جنت اور کافروںکا ٹھکانہ جہنم ہے۔
10 اللہ عز وجل کی محبت کے واجب ہونے پر ایمان۔
11۔اللہ عز وجل سے خوف کھانے کے وجوب پر ایمان۔

12۔اللہ عز وجل سے امیدرکھنے کے وجوب پر ایمان۔
13۔اللہ عز وجل پر اعتماد و توکل کرنے کے وجوب پر ایمان۔
14۔نبی کریم ﷺسے محبت کے واجب ہونے پر ایمان۔
15۔غلو کئے بغیر نبی کریم ﷺ کی تعظیم و توقیر اور احترام کے واجب ہونے پر ایمان۔
16۔آدمی کا اپنے دین سے اس قدر محبت کرنا کہ جہنم میں ڈالا جانا اس کے نزدیک کفر کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہو۔

17۔طلب علم: یعنی دلائل کی روشنی میں اللہ عز وجل’ اس کے دین اور اس کے نبی ﷺکی معرفت کا حصول۔
18۔ علم کی نشر و اشاعت اورلوگوں کو اس کی تعلیم دینا۔
19۔قرآن کریم سیکھ کر ،دوسروں کو سکھا کر، اس کے حدود و احکام کی حفاظت کرکے، اس کے حلام و حرام کی معرفت حاصل کرکے، ا س کے متبعین کی عزت و تکریم کرکے نیز اس کو حفظ کرکے اس کی تعظیم کرنا۔

20۔طہارت و پاکی اور وضو کی پابندی کرنا۔
21۔پنجوقتہ نمازوں کی پابندی کرنا۔
22۔زکاة ادا کرنا۔
23۔فرض اور نفل روزے رکھنا۔
24۔اعتکاف کرنا۔
25۔خانۂ کعبہ کاحج کرنا۔

26۔اللہ عز وجل کی راہ میں جہاد کرنا۔
27۔اللہ عز وجل کی راہ میں مرابطہ (سازو سامان اور ہتھیار لے کر اسلامی حدود کی نگرانی کرنا)۔
28۔دشمن کے سامنے ثابت قدم رہنا اور میدان جنگ سے نہ بھاگنا۔
29۔مال غنیمت حاصل کرنے والوں کو اپنے امام یا اس کے نائب کو مال غنیمت کا پانچواں حصہ اد اکرنا۔
30۔اللہ عز وجل سے تقرب کی خاطر غلام آزاد کرنا۔

31۔جنایات(جرائم) پر واجب ہونے والے کفاروں کی ادائیگی جو کتاب و سنت میں چار ہیں:قتل کا کفارہ، ظہار کا کفارہ، قسم کا کفارہ اور ماہ رمضان (کے دن ) میں بیوی سے ہمبستری کرنے کا کفارہ۔
32۔معاملات (عہد و پیمان)کو پورا کرنا۔
33۔اللہ عز وجل کی نعمتوں کا شمار اور اس پر واجب شکر گزاری۔
34۔غیر ضروری (لایعنی) چیزوں سے زبان کی حفاظت کرنا۔
35۔امانتوں کی حفاظت اور انہیں ان کے مستحقین کو ادا کرنا۔

36۔کسی جان کے قتل اور اس پر ظلم کرنے کو حرام جاننا۔
37۔ شرمگاہوں کی حفاظت اور ان میں لازم عفت و عصمت اختیار کرنا۔
38۔حرام اموال سے ہاتھ روک لینا، اور اس میں چوری ‘ رہزنی’ رشوت خوری اور شرعاً ناجائز مال کھانے کی حرمت وغیرہ شامل ہے۔
39۔کھانے پینے میں احتیاط کا وجوب، اور کھانے پینے کی ناجائز اشیاء سے اجتناب۔
40۔حرام اورمکروہ لباس’ وضع قطع اور حرام کردہ برتنوں سے اجتناب کرنا۔
41۔شریعت اسلامیہ کے مخالف کھیل کود اور تفریحی اشیاء کو حرام جاننا۔
42۔خرچ میں میانہ روی اپنانااور باطل طریقہ سے مال کھانے کو حرام جاننا۔
43۔بغض و حسد سے اجتناب۔

44۔لوگوں کی عزت و ناموس کی حرمت اور ان میں نہ پڑنے کا وجوب۔
45۔اللہ عز وجل کے لئے اخلاص عمل’ اور ریاکاری سے اجتناب۔
46۔نیکی پر مسرت و شادمانی اور گناہ پر رنج و غم (کا احساس)۔
47۔ توبۂ نصوح (خالص توبہ) سے ہر گناہ کا علاج کرنا۔
48۔تقرب الٰہی کے اعمال، اجمالی طور پریہ ہدی’ قربانی اور عقیقہ ہیں۔

49۔اولو الامر (ائمہ’ امراء اور حکام) کی اطاعت۔
50۔ ‘جماعت’ کے عقیدہ و منہج کی پابندی۔
51۔لوگوں کے درمیان انصاف سے فیصلہ کرنا۔
52۔بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا۔
53۔نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں باہمی تعاون۔
54۔شرم و حیا۔

55۔والدین کے ساتھ حسن سلوک۔
56۔صلہ رحمی (رشتہ جوڑنا)۔
57۔ حسن اخلاق۔
58۔غلاموں کے ساتھ حسن سلوک۔
59۔غلاموں پر ان کے آقاؤں (مالکان) کے حقوق۔
60۔اہل و عیال اور بچوں کے حقوق کی ادائیگی۔
61۔دین داروں سے قربت، ان سے محبت اور ان سے سلام و مصافحہ کرنا۔
62۔سلام کا جواب دینا۔

63۔بیمار کی عیادت کرنا۔
64۔اہل قبلہ میں سے مرنے والوں پر نماز جنازہ کی ادائیگی۔
65۔چھینکنے والے کو جواب دینا(یعنی اس کے ”الحمدللہ” کے جواب میں ”یرحمک اللہ” کہنا)۔
66۔کفار اور فسادیوں سے دوری اختیار کرنااور ان کے ساتھ سختی کا معاملہ کرنا۔
67۔پڑوسی کی عزت کرنا۔
68۔مہمان کی عزت و تکریم۔
69۔گنہگاروں کی پردہ پوشی کرنا۔

70۔ مصائب پرصبر اور جن لذتوں اور خواہشات کی طرف نفس کا میلان ہوتا ہے ان سے رک جانا۔
71۔دنیا سے بے رغبتی اور قلت آرزو۔
72۔غیرت کا مظاہرہ اور بے جا نرمی سے پرہیز۔
73۔ غلو سے اجتناب۔
74۔سخاوت و فیاضی۔
75۔چھوٹے پر شفقت اور بڑے کا احترام۔
76۔ باہمی اختلافات کی اصلاح۔

77۔آدمی اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہی پسند کرے جو خود اپنے لئے پسند کرتا ہے، اور اس کے لئے اس چیز کو ناپسند کرے جسے خود اپنے لئے ناپسند کرتا ہے، اس میں راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانابھی شامل ہے جس کی طرف (ایمان کی شاخوں والی)حدیث میں اشارہ کیا گیاہے۔ نیکی کی بات کو پھیلانا بھی صدقہ جاریہ ہے اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین

Leave a Comment