ان 2 جگہ پر بیوی کو کسی حال میں بھی اکیلا مت چھوڑنا،ورنہ ساری زندگی پچھتاؤگے

دو جگہ ایسی ہیں جہاں تمہاری بیوی کو سن سے زیادہ تمہاری ضرورت ہے، ان موقعوں پر اسے کبھی اکیلامت چھوڑنا،1۔ایک بیماری کی حالت میں بیوی کو کبھی اکیلا مت چھوڑنا، کیونکہ وہاں اسے سب سےز یادہ تمہاری ضرورت ہوتی ہے،2۔گھر والوں کے سامنے اس کی عزت بنانے میں کبھی پیچھے مت ہٹنا،کیونکہ جب ساتھ دینے والا ساتھی ہو تو عورت خود کو دنیا کی سب سے طاقتور عورت محسوس کرتی ہے۔

شوہر کا بیوی سے جھگڑا ہو گیا تو بیوی ناراض ہو کر میکے چلی گئی اور بولی اب کبھی واپس نہیں آؤں گی۔کچھ دن بعد شوہر نے فون کر کے کہا مجھ سے غلطی ہو گئی ، مجھے معاف کر دو اور گھر واپس لوٹ آؤ، بیوی بولی تم نے میرا دل توڑدیا میں واپس نہیں آؤں گی۔ شوہر بولا واپس آجاؤ اب کبھی نہیں لڑوں گا، بیوی بولی : تمہارے پاس گلاس ہے ؟ شوہر بولا ہاں ہے ، بیوی نے کہا اسے زور سے زمین پر مارو شوہر نے ویسا ہی کیا۔ گلاس نیچے زمین پر لگتے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا بیوی بولی اب اس ٹوٹے ہوئے گلاس کو دوبارہ جوڑ سکتے ہو؟ شوہر خاموش تھا کیونکہ اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ جو رشتے ہماری طاقت ہوتے ہیں ، اکثر وہی ہماری کمزوری بھی ہوتے ہیں ،

رشتہ خ و ن کا ہو یا احساس کا اس میں ضد نہیں آنی چاہئے ، ورنہ ضد جیت جاتی ہے اور رشتہ ہار جاتا ہے۔پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی معاشرتی تعلیمات کا بنیادی عنصر عورتوں کا احترام تھا ۔ آپ ﷺ نے عین شباب میں ڈھلتی ہوئی عمر کی بیوہ خاتون سے شادی کی، جو تاریخ میں ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے نام سے یاد کی جاتی ہیں۔ ان کی وفات کے بعد آنحضرت ﷺ کا معمول تھا ،کہ جب کوئی جانور ذبح کرتے تو مرحومہ کی ہم نشیں عورتوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کے ہاں گوشت بھجواتے تھے ۔ حضور اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات کو اُم المومنین کہنا ہی ثابت کرتا ہے کہ عورت کے رشتہ کو کس قدر تقدس دیا گیا ہے ۔اسلام کا عورت کو دوسرا عطیہ مساوات ہے

قرآن حکیم کی یہ آیت استثنائی صورت فراہم کرتی ہے۔ ترجمہ: مرد عورتوں پر محافظ و نگراں ہیں ، اس وجہ سے کہ اﷲ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی ہے کہ وہ اپنے اموال میں سے ( عورتوںکی ضرورت و آرام کے لیے) خرچ کرتے ہیں۔عربی زبان میں، کسی چیز کی ضروریات کو مہیا کرنے والے، اس کی حفاظت کرنے والے، اور اس کی اصلاح کے ذمہ دار کو قوام کہا جاتا ہے، جیسے ہر فوج کا ایک کمانڈر اور ہر مملکت کا ایک فرماں روا ہونا ضروری ہے ،جو نظام قائم رکھے اور فوج اور رعایا اس کے حکم پر عمل کرے ۔ اسی طرح گھر کی ریاست کا بھی ایک حاکم اعلیٰ ہونا چاہیے ، جو گھر کی ضروریات کا کفیل اور اس کی خوشحالی کا ذمہ دار ہو اور اس کے احکام کی اطاعت کی جائے،

ورنہ گھر کی اس چھوٹی سی مگر اہم ریاست کا سکون و اطمینان برباد ہو کر رہ جائے گا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ذمہ داری کس کو سونپی جائے ، اور اس بار گراں کو اٹھانے کی صلاحیت کس میں موجود ہے، اس کے دو ہی امیدوار ہیں شوہر اور بیوی ۔قرآن حکیم نے شوہر کو اس ذمہ داری کا اہل قرار دیا ہے اور ساتھ ہی وجہ بھی بتادی ہے کہ اس میں دو خوبیاں ہیں۔ پہلی خوبی تو یہ کہ مرد اپنی جسمانی قوت ، معاملہ فہمی اور دور اندیشی میں بلاشبہ عورت سے بڑھا ہوا ہے ۔ اور مرد کی دوسری خوبی یہ ہے ،کہ بیوی بچوں کے جملہ اخراجات اور ان کے آرام و حفاظت کی تمام تر ذمہ داری اس پر عائد ہے ۔ اس لیے اپنی فطری و کسبی برتری کے باعث مرد ہی اس امر کا مستحق ہے کہ

وہ گھر کی ریاست کا امیر ہو ۔کوئی کج فہم یہ ہرگز نہ سمجھے کہ عورت کے گلے میں مرد کی غلامی کا طوق ڈالا جا رہا ہے ۔ نہیں ، ان انتظامی امور کے علاوہ عورت کے اپنے حقوق ہیں جو مرد پر ایسے ہی واجب ہیں، جیسے مرد کے حقوق عورت کے ذمہ واجب ہیں جیسا کہ قرآن میں کہا گیا ، اور ان کے بھی حقوق ہیں (مردوں پر) جیسے مردوں کے ان پر حقوق ہیں

Leave a Comment