حالات کوئی بھی ہوں شُکر ہمیشہ شکوے سے بہتر ہوتا ہے

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ( وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ كَرِیْمٌ(۴۰) )ترجمہ : اور جو شکر کرے تووہ اپنی ذات کیلئے ہی شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا ربارشادِ باری تعالیٰ ہے 🙁 وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ كَرِیْمٌ(۴۰) )ترجمہ : اور جو شکر کرے تووہ اپنی ذات کیلئے ہی شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بے

پرواہ ہے ، کرم فرمانے والا ہے۔تفسیر : اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اُس کا شکر ادا کرنا ہم پر حق ہے اور اُس حق کی ادائیگی خدا کو پسند ہے ، جبکہ ناشکری اُسے ناپسند ہے اور یہ عقیدہ بھی ذہن نشین رہے کہ شکر کا فائدہ ہماری ذات کو ہے اور ناشکری کا نقصان بھی ہم ہی کو ہے ، کیونکہ خداوندِ قُدُّوس بے نیاز ہے ، اُسے کسی کے شکر یا ناشکری سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، چنانچہ قرآنِ پاک میں فرمایا : (اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنْكُمْ- وَ لَا یَرْضٰى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَۚ-)ترجمہ : اگر تم ناشکری کرو تو بیشک اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کی ناشکری کو پسند نہیں کرتا۔ناشکری عقل و نقل دونوں اعتبار سے مَذموم ہے ، نقل کے اعتبار سے یوں کہ قرآن میں فرمایا : (وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(۷))ترجمہ :

اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔ (پ13 ، ابراھیم : 7) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) ناشکری کے بد سے بدتر درجوں کے اعتبار سے اِس کی سزا بھی سخت سے سخت ترین ہے جیسے خدا کے وجود ہی کا اِنکار کرنا یعنی دہریت ، خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا یعنی شرک اور خدا کے کسی حکم کا انکار کرنا یعنی کفر ، یہ ناشکری کی سب سے بدتر صورتیں ہیں تو اِن کی سزا بھی سب سے سخت ہے جبکہ اعضاء کو گناہوں میں استعمال کرنا ، پہلی صورتوں یعنی دہریت اور کفر و شرک سے کم تر ہے ، لہٰذا اس کی سزا بھی اِسی کے مطابق ہے۔ناشکری کا عقلی اعتبار سے مذموم اور شکر کا محبوب ہونا یوں واضح ہے کہ ہر انسان سمجھتا ہے کہ

محسِن و مُنعِم کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور یہ ہر انسان کی فطرت میں ہے۔ اسی لئے اگر کوئی اپنے محسن کی ناشکری کرے تو اُسے مذموم سمجھا جاتا ہے۔ اِسی لئے دنیا میں جب کوئی کسی پر احسان کرتا ہے تو ہر مذہب و ملت اور علاقہ و قوم والا اپنی تہذیب و روایات کے مطابق مختلف الفاظ و اعمال کی صورت میں دوسرے کا شکریہ ادا کرتا ہے۔ لوگوں کے احسانات پر اُن کا شکریہ ادا کرنا شریعت کو بھی پسند ہے چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : لَايَشْكُرُ اللہَ مَنْ لَايَشْكُرُ النَّاس ترجمہ : جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔ (سنن ابی داؤد ، 4 / 335 ، حدیث : 4811) اِسی وجہ سے دینِ اسلام میں

ماں باپ اور استاد کا شکریہ ادا کرنے کا صراحت سے حکم دیا گیا ہے۔جب مخلوق کی چند محدود مہربانیوں پر شکریہ ادا کرنا ضروری ہے تو خالقِ کائنات ربُّ العالمین ، اَرْحَمُ الرَّاحِمین کی بے پایاں رحمتوں پر شکر ادا کرنا کس قدر ضروری ہوگا جس کی نعمتوں کا شمار بھی ہمارے بس میں نہیں ہے ، جس نے ظاہری باطنی نعمتوں کی بارشیں ہم پر برسا دیں ، جس کی نعمتوں کے دریا سے ہم سیراب ہورہے ہیں ، جس کی بارگاہ کے سوا کوئی نعمت کہیں سے مل ہی نہیں سکتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَاؕ-) ترجمہ : اور اگر تم اللہ کی نعمتیں گنو تو اُنہیں شمار نہیں کر سکو گے۔

Leave a Comment