نماز واقعی بے حیائی سے روکتی ہے؟

بے حیائی

ایک دفعہ میں اپنے استاد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا،میں نے سوال کیا:حضرت قران کہتا ہے:”بے شک نماز بْرے اور بے حیائی کے کاموں سے روکتی ہے۔(سورہ عنکبوت آیت 45)لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ نماز بھی پڑھتے ہیں

اور سود بھی کھاتے ہیں،جھوٹ بھی بولتے ہیں،بے حیائی کے کام بھی کرتے ہیں۔ہم خود بھی نماز پڑھنے کے باوجود گناہوں سے مکمل طور پر کنارہ کش نہیں ہو پاتے۔تو اِس آیت کا کیا مطلب ہوا؟فرمانے لگے: قاضی بیٹا۔قران کی آیت پر نہیں اپنی نمازوں پر شک کرو۔کہان نمازوں میںایسی کون سی کمی ہیجو تمہیں گناہوں سے نہیں روک پا رہیں۔

صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین نےکبھی یہ سوال نہیں کیا،کیونکہ انکی نمازیں واقعی نمازیں تھیں۔اب بھلا سوچو اگر ایک شخص کو دن میں پانچ بار عدالت میں جج کا سامنا کرنا ہو تو کیا وہ جرم کرنے کا سوچے گا بھی؟جرم تو وہ کرتا ہے جو سمجھتا ہے کہ عدالت سے بچ جائیگا۔یہ جواب سن کر مجھے وہ حدیث یاد آگئی کہ بہت سے نمازیوں کی نمازیں انکے منہ پر مار دی جائینگی۔یا اللہ ہمیں اصلی اور سچی نمازیں پڑھنے اور اس پر پابند ہونے اور رہنے کی توفیق عطا فرما دے

یہ بھی پڑھیں!

جُنید بغدادی کہتے تھے کہ میں نے اِخلاص ایک حجام سے سِیکھا۔ایک میرے اُستاد نے کہا کہ تُمہارے بال بہت بڑھ گئے ہیں اب کٹوا کے آنا۔پیسے کوئی تھے نہیں پاس میں، حجام کی دُکان کے سامنے پہنچے تو وہ گاہک کے بال کاٹ رھا تھا۔اُنہوں نے عرض کی چاچا اللہ کے نام پہ بال کاٹ دو گے۔یہ سنتے ہی حجام نے گاہک کوسائیڈ پر کیا اور کہنے لگا۔ پیسوں کے لیے توروز کاٹتا ھوں۔اللہ کے لیے آج کوئی آیا ھے۔ اب انُکا سر چُوم کے کُرسی پہ بٹھایا روتے جاتے اور بال کاٹتے جاتے۔حضرت جنید بغدادی نے سوچا کہ

میں جب کبھی پیسے ھوئے توان کو ضرور کچھ دوں گا۔عرصہ گزر گیا یہ بڑے صوفی بزرگ بن گئے۔ ایک دن ملنے کے لیے گئے واقعہ یاد دلایا اور کچھ رقم پیش کی۔تو حجام کہنے لگا جُنید تو اتنا بڑاصوفی ھوگیا تجھےاتنا نہیں پتا چلا کہ جو کام اللہ کے لیے کیا جائے اس کا بدلہ مخلوق سے نہیں لیتے۔۔

جُنید بغدادی کہتے تھے کہ میں نے اِخلاص ایک حجام سے سِیکھا۔ایک میرے اُستاد نے کہا کہ تُمہارے بال بہت بڑھ گئے ہیں اب کٹوا کے آنا۔پیسے کوئی تھے نہیں پاس میں، حجام کی دُکان کے سامنے پہنچے تو وہ گاہک کے بال کاٹ رھا تھا۔اُنہوں نے عرض کی چاچا اللہ کے نام پہ بال کاٹ دو گے۔یہ سنتے ہی حجام نے گاہک کوسائیڈ پر کیا اور کہنے لگا۔ پیسوں کے لیے توروز کاٹتا ھوں۔اللہ کے لیے آج کوئی آیا ھے۔ اب انُکا سر چُوم کے کُرسی پہ بٹھایا روتے جاتے اور بال کاٹتے جاتے۔حضرت جنید بغدادی نے سوچا کہ

میں جب کبھی پیسے ھوئے توان کو ضرور کچھ دوں گا۔عرصہ گزر گیا یہ بڑے صوفی بزرگ بن گئے۔ ایک دن ملنے کے لیے گئے واقعہ یاد دلایا اور کچھ رقم پیش کی۔تو حجام کہنے لگا جُنید تو اتنا بڑاصوفی ھوگیا تجھےاتنا نہیں پتا چلا کہ جو کام اللہ کے لیے کیا جائے اس کا بدلہ مخلوق سے نہیں لیتے

اپنی رائے کا اظہار کریں