حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حجۃ الوداع والے سال بہت زیادہ بیمار ہو گیا تھا‘ جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کیلئے تشریف لائے تو میں نے کہا‘ میری بیماری زیادہ ہو گئی ہے اور میں مالدار آدمی ہوں اور میرا کوئی وارث نہیں ہے‘ صرف ایک بیٹی ہے تو میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ نہیں میں نے کہا‘ آدھا مال صدقہ کر دوں؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں‘میں نے کہا کہ تہائی مال صدقہ کر دوں‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ ہاں تہائی مال صدقہ کر دو اور تہائی بھی بہت ہے‘ تم اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ کر جاؤ‘ یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو فقیر چھوڑ کر جاؤ اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں اور تم جو بھی خرچہ اللہ کی رضا کیلئے کرو گے اس پر تمہیں اللہ کی طرف سے اجر ضرورملے گا حتیٰ کہ تم جو لقمہ اپنی بیوی کے منہ میں ڈالوں گے اس پر بھی اجر ملے گا‘
میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ اور مہاجرین تو آپ کے ساتھ مکہ سے واپس چلے جائیں گے‘ میں یہاں ہی مکہ میں رہ جاؤں گا اور میرا انتقال یہاں مکہ میں ہو جائے گا اور چونکہ میں مکہ سے ہجرت کر کے گیا تھا تو میں اب یہ نہیں چاہتا کہ میرا یہاں انتقال ہو‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ نہیں تمہاری زندگی لمبی ہو گی (اور تمہارا اس مرض میں یہاں انتقال نہ ہو گا) اور تم جو بھی نیک عمل کرو گے اس سے تمہارا درجہ بھی بلند ہو گا اور تمہاری عزت میں بھی اضافہ ہوگا اور تمہارے ذریعے سے اسلام کا اور مسلمانوں کا بہت فائدہ ہو گا اور دوسروں کا بہت نقصان ہو گا چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ عراق کے فتح ہونے کا ذریعہ بنے۔(حیاۃ الصحابہ‘ جلد دو‘ صفحہ245)
محبت ایسی ہوتی ہے
میری شادی کو اکیس سال گزر گئے تھے، آج میری بیوی چاہتی تھی کہ میں کسی اور عورت کو باہر رات کے کھانے کے لئے لیکر جاؤں، میری بیوی نے کہا کہ وہ مجھ سے محبت کرتی ہے لیکن وہ یہ بھی جانتی ہے کہ وہ دوسری عورت بھی مجھ سے بہت محبت کرتی ہے اور وہ عورت بہت خوش ہوگی اگر میں اسکے ساتھ کچھ وقت
گزاروں گا،وہ دوسری عورت جس کا ذکر میری بیوی کر رہی تھی وہ اور کوئی نہیں میری اپنی امی تھیں، وہ انیس سال پہلے بیوہ ہوچکی تھیں لیکن میرا کام اور پھر میرے تین بچے میرے لئے بہت بڑی ذمہ داری تھے کہ میں بمشکل ہی اپنی امیسے مل پاتا تھا، اس رات میں نے اپنی امی کو کال کی اور انھیں کھانے کے لئے مدعوکیا، انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں ٹھیک تو ہوں کیونکہ آج سے پہلے میں نے کبھی ان کے لئے شاید ایسے وقت نہ نکالا تھا‘میں نے انھیں بتایا کہ میں ان کے ساتھ کچھ وقت گزارنا چاہتا ہوں وہ یہ سن کر بہت خوشی ہوئیں کیونکہ اتنے سال بعد انھیں اپنے بیٹے کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملا تھا، جمعے کے دن آفس سے فارغ ہو کرمیں انھیں لینے کیلئے پہنچا، میں کچھ گھبرا رہا تھا کیونکہ کچھ بھی ہو اتنے سال بعد اپنی امی سے ملنے میں بھی مجھے ہچکچاہٹ محسوس ہو رہی تھی‘جب میں پہنچا تو میری امی میرا ہی انتظار کر رہی تھی، وہ مجھے دیکھ کر مسکرانے لگیں،
انھوں نے مجھے بتایا کہ انھوں نے اپنے سب دوستوں کو بتایا کہ آج ان کا بیٹا صرف ان کے لئے وقت نکال کر انھیں کھانے پر لے جارہا ہے، یہ سن کر ان کے سب دوست بہت متاثر ہوئے۔ہم ایک ریسٹورنٹ پہنچے وہاں کا ماحول بہت اچھا اور خوشگوار تھا، بیٹھنے کے بعد مجھے مینیو پڑھنا تھا کیونکہ اب امی تو صرف وہی لفظ پڑھ پا رہی تھیں جو بڑے حروف میں تھے، میں نے جب امی کی طرف دیکھا تو وہ مجھے ہی دیکھ رہیں تھیں، ان کے چہرے پر ایک معنی خیز مسکراہٹ تھی، انھوں نے مجھے کہا کہ وہ ہمیشہ مجھے مینیو پڑھ کر سناتی تھیں جب میں چھوٹا تھا،
میں نے ان سے کہا کہ آج وہ مجھے اس موقع سے مستفید ہونے دیں‘ کھانے کے دوران ہم نے بہت ساری باتیں کیں، ایک دوسرے کی زندگیوں کے بارے میں بھی بات چیت کی‘ جب ہم گھر پہینچے تو انھوں نے مجھے کہا کہ میں تمہاے ساتھ دوبارہ جاو گی لیکن اس دفعہ میں تمہیں مدعو کروں گی‘میں راضی ہوگیا۔جب میں گھر پہنچا تو میری بیوی نے مجھ سے پوچھا کہ ہماری ملاقات کیسے رہی؟ میں نے کہا بہت اچھی میری سوچ سے بھی زیادہ اچھی‘ کچھ دن بعد اچانک میری امی کو ہارٹ اٹیک آیا اور وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں‘ یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ مجھے ان کے لئےکچھ کرنے کا موقع ہی نہ ملا-
کچھ دن بعد مجھے ایک لفافہ موصول ہوا‘ اس میں اسی ریسٹورنٹ کی رسید کی کاپی تھی ساتھ ہی ایک خط بھی تھا جس میں لکھا تھا کہ میں نے ایڈوانس میں یہاں کا بل جمع کروا دیا ہے‘مجھے پتہ نہیں کہ میں وہاں ہونگی یا نہیں لیکن پھر بھی میں نے دو لوگوں کے لئے جمع کروایا ہے ایک تمہارے لئے اور ایک تمہاری بیوی کے لئے تم اندازہ بھی نہیں کرسکتے کہ اس رات کی میرے لئے کتنی اہمیت ہے‘ میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں میرے پیارے بیٹے۔اسوقت مجھے اندازہ ہوا کہ وقت پر پیار کا اظہار کرنا کتنا ضروری ہے اور خاص کر اپنی فیملی کو وقت دینا جس کے وہ حقدار ہیں‘ زندگی میں فیملی سے زیادہ ضروری کچھ بھی نہیں ہے‘ میری آپ کیلئے یہی نصیحت ہے کہ اپنی فیملی کو وقت دیں کیونکہ اس وقت کو پھر کبھی کے انتظار میں نہیں چھوڑا جا سکتا کیونکہ پھر کبھی شاید وقت تو ہو پر وہ نہ ہو جسے اس وقت کی ضرورت تھی۔
اپنی رائے کا اظہار کریں