یہ وقت بھی گزر جائے گا ۔

ایک شخص نے کسی کا قرض ادا کرنا تھا، قرض خواہ نے قرضدار کو مزدوری کے طور پر بیل کے ساتھ ہل میں جوت دیا۔ایک تیسرا شخص وہاں سے گزرا تو اسے قرض دار کی حالت پر ترس آگیا، اسنے قرض دار کو قرض ادا کرنے کی آفر کی لیکن قرض دار نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ “یہ وقت بھی گزر جائے گا۔”خیر پورے دن کی بدن توڑ محنت کے بعد قرض دار قرض سے آزاد

ہوگیا۔کچھ عرصہ بعد اس تیسرے شخص کا دوبارہ اسی علاقے سے گزر ہوا تو اسنے سوچا قرض دار کا حال احوال پتا کر لوں، جاکر معلوم کیا تو علم ہوا کہ قرض دار بہت امیر کبیر ہوگیا ہے، اس نے جاکر اس سے ملاقات کی اور اس کی موجودہ حالت پر خوشی کا اظہار کیا تو اس قرض دار نے مسکرا کر جواب دیا، “یہ وقت بھی گزر جائے گا۔”کچھ عرصہ بعد یہ شخص جب دوبارہ اس علاقے میں گیا تو اسے علم ہوا کہ قرض دار فوت ہوچکا ہے، یہ شخص اس کی قبر پر فاتحہ پڑھنے گیا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی

جب وہاں بھی یہی لکھا تھا کہ، “یہ وقت بھی گزر جائے گا۔”یہ شخص کافی سوچتا رہا کہ آخر اس بات کا کیا مطلب ہوسکتا ہے، کیا قبر میں جانے کے بعد کاوقت بھی گزر جائے گا؟لیکن جب وہ اس کے بعد وہاں آیا تو اسے اپنی اس بات کا بھی جواب مل گیا، جب اس نے دیکھا کہ اس کی قبر کی جگہ سے سڑک گزر رہی تھی اور وہاں بچے کھیل رہے تھے۔نتیجہ :- یہ دنیا کسی کی نہیں، یہاں کچھ بھی ہمیشہ نہیں رہتا، باقی رہنے والی چیز صرف اعمال اور لوگوں کی فلاح کیلئے کیے گئے کام ہیں

لالچی بادشاہ۔ مڈاس ایک بہت مشہور بادشاہ تھا۔ وہ بہت لالچی تھا اور سونا جمع کرنے کا شوقین تھا۔ ہر وقت اپنے خزانے میں بیٹھا سونا گنتا رہتا تھا۔ ایک دن اس کی ملاقات ایک اجنبی سے ہوئی۔اجنبی نے بادشاہ کو بتایا کہ وہ اس کی کوئی بھی تمنا پوری کر سکتا ہے۔ مڈاس نے اس سے کہا کہ مجھے ایسی قوت دیدو کہ میں جس شے کو چھوؤں وہ سونا بن جائے۔ اجنبی نے اس کو یہ طاقت دے دی۔ اس نے بتایا کہ کل صبح جب تم نیند سے بیدار ہو گے تو تم اپنی اس طاقت کو استعمال کر

استعمال کر سکتے ہوگے۔ صبح بادشاہ جاگا تو اس کے سر پر یہی سوار تھا کہ اسے ہر چیز کو سونا بنانا آتا ہے یا نہیں۔ اس نے جب بیڈ پر پڑی چادر کو ہاتھ لگایا تو وہ سونے کی بن گئی۔ بادشاہ کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور وہ ناچنے لگا۔ اس نے تھوڑی سی دیر میں اپنے کمرے کی ہر چیز کو سونے کا بنا دیا۔ پھر اسے بھوک لگی تو اس نے ناشتہ منگوایا۔ جب اس نے پھلوں کو ہاتھ لگایا تو وہ بھی سونے کے بن گئے۔وہ تھوڑا سا پریشان ہوا کہ آگے کیسے کام چلے گا لیکن پھر وہ یہ سوچ سوچ کر خوش ہوتا رہا کہ جب تک اس کے پاس طاقت ہے جتنی چیزوں کو سونے کا بنا سکتا ہے بناتا جائے۔

اس نے کھڑکی سے نیچے باغ میں دیکھا تو اس کی بیٹی باہر چہل قدمی کر رہی تھی۔ اس نے اسے اوپر بلایا۔وہ کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کے گلے لگ گئی اور یکدم سونے کے مجسمے میں تبدیل ہو گئی۔ بادشاہ بہت پریشان ہوا اور سپاہیوں کو بھیجا کہ اس اجنبی کو فوراً واپس بلا کر لائیں۔ جب اجنبی سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو بادشاہ نے کہا کہ مجھے یہ قوت ہرگز نہیں چاہیے ہے۔

مجھے میری زندگی پہلے کی طرح لوٹا دو اور کسی طرح میری بیٹی کو ٹھیک کر دو۔ اس اجنبی نے کوئی ایسا عمل کیا کہ سب کچھ واپس نارمل ہو گیا اور مڈاس کا لالچ ختم ہو گیا۔ حاصل سبق غلط خواہشات ہمیشہ بربادی کی طرف لے کر جاتی ہیں۔ جب کوئی دعا یا کوئی تمنا پوری نہ ہو تو سمجھ جاؤ کہ اس میں کوئی بھلائی پنہاں ہے۔ جیسے انسان کسی چیز کو حاصل کرنے کا شدید خواہاں ہوتا ہے، کبھی اسے وہ چیز مل جائے تو اسے پتہ لگتا ہے کہ اسے وہ چیز کتنی مہنگی پڑ گئی۔ کسی چیز کے نہ ملنے پر بھی خدا کے شاکر رہو۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کہانیوں اور سپورٹس میں کھلاڑی یا کردار بدلے جا سکتے ہیں۔ ایک ذخمی ہو گیا تو اس کا متبادل اس کا کردار بخوبی ادا کر لیتا ہے مگر حقیقی زندگی میں اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

کوئی بھی غلط حرکت کرنے سے پہلے سو بار سوچو کیونکہ وہ تمہاری شخصیت اور تمہارے ماضی کا ان مٹ حصہ بن جائے گی اور زندگی بھر لوگ تمہیں اس سے منسوب کرتے رہیں گے۔ خطا کرنا انسان کی فطرت ہے اور معاف کرنا خدا کی مگر لوگوں کی دنیا ہے اور انہی لوگوں میں ہم ان کی زندگی کا حصہ بن کر گزارہ کرتے ہیں۔ لوگ کسی کی کوئی غلطی کبھی فراموش نہیں کرتے۔

جو کردار تمہیں دیا گیا ہے اسے بخوبی نبھاؤ۔ کوئی تمنا پوری کرنے سے پہلے اپنے ماں باپ، بہن بھائی، بیٹا بیٹی اور ہر رشتے کے بارے میں سوچو کہ جب ان کو معلوم ہو گا تو ان پر کیا اثر پڑے گا۔ تم ایک بیٹا ، بیٹی، بہن یا بھائی ہو اور تمہاری جگہ کوئی اور نہیں لے سکتا اور تمہاری لغزشیں تمہارے گھر والوں کو بھی بھگتنی پڑیں گی۔مڈاس کی کہانی فرضی ہے تو سب کچھ پہلے جیسا بن گیا، اصلی زندگی میں ایک معمولی سی غلطی کو ٹھیک کرنے میں زمانے بیت جاتے ہیں۔

Leave a Comment