بڑی سے بڑی مشکل سے نکلنے کا پاور فل وظیفہ!قرآن و حدیث کی روشنی میں

انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اور انسان ہی نے محنت اور لگن سے پوری دنیا میں چھپے رازوں کو جانا ہے اور دنیا کو مسخر کیا ہے لیکن کبھی انسان نفس امارہ کے دھوکے میں پڑھ کر کچھ گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اس کے دل پر سیاہ دھبہ لگنا شروع ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا چلا جاتا ہےاور مشکلات میں پھنستا چلا جاتا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہوتی ہے

کہ وہ اللہ کی شفقت و کرم سے محروم ہوتا ہے اور اپنے ہر کام میں ناکام رہتا ہے ہاں بعض اوقات کوئی کامیابی ملتی ہے تو اس کامیابی کے بعد بڑے نقصان سے دوچار بھی ہوتا ہے اسی لئے اس کے علاج کے طور پر آقا کریم ﷺ نے استغفار کی تلقین کی ہے اور فرمایا کہ میں دن میں ستر بار استغفار کرتا ہوں۔اور یہ استغفار ہی ہے جو انسان کو ذلت و رسوائی محرومی سے بچا سکتا ہے اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہوسکتا ہے اس سے ہی ہم اللہ پاک کو راضی کر سکتے ہیں اور کوئی طریقہ اللہ کو راضی کرنے کا نہیں ہے استغفار کی کئی شکلیں ہیں۔ ایک تو زبان کی مدد سے استغار کرنا اور دوسرا یہ کہ عمل سے ثابت کرنا کہ میں اپنے ماضی سے برائت کا اعلان کرتا ہوں اور اب اچھے کام کروں گا

تو یہ دونوں چیزیں یعنی زبان سے اقرار اور عمل سے ثبوت لازم و ملزوم ہیں اللہ تعالیٰ سے استغفار ہی کے ذریعے صغیرہ کبیرہ گناہوں سے معافی حاصل کی جاسکتی ہے۔آں حضرت صلى الله عليه وسلم اتنی کثرت سے استغفار وتوبہ اس لیے نہیں کرتے تھے،کہ معاذ الله آپ صلى الله عليه وسلم گناہ میں مبتلا ہوتے تھے، کیوں کہ آپ صلى الله عليه وسلم معصوم تھے،بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ آں حضرت صلى الله عليه وسلم مقام عبدیت کے سب سے اونچے مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے اپنے طور پر یہ سمجھتے تھے کہ شاید مجھ سے خدا کی بندگی وعبادت میں کوئی قصور ہو گیا ہو اور میں وہ بندگی نہ کر سکا ہوں ، جو رب ذوالجلال والاکرام کی شان کے لائق ہے، نیز اس سے مقصود اُمّت کو

استغفار وتوبہ کی ترغیب دلانا تھا کہ آں حضرت صلى الله عليه وسلم باوجود یکہ معصوم اور خیر المخلوقات تھے، جب آپ صلى الله عليه وسلم نے دن میں ستر بار توبہ واستغفار کی، تو گناہ گاروں کو بطریق اولیٰ استغفار وتوبہ بہت کثرت سے کرنی چاہیے۔ آج پورا ملک بے امنی کا شکار ہے ، کسی کی جان، مال محفوظ نہیں، صبح گھر سے نکلنے اولا شخص اپنے دماغ میں سینکڑوں وساوس لے کر نکلتا ہے۔کہ پتہ نہیں کیا ہو جائے؟ عذاب الہی کبھی قتل وغارت گری کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، کبھی زلزلوں کی صورت میں، کبھی سیلاب تو کبھی قحط کی صورت میں اور اس عذاب الہی کے دنیاوی اسباب ڈھونڈ کر ان کے سدّباب کی ناکام کوشش کی جاتی ہے، لیکن اپنی طرز زندگی پر نظر نہیں ڈالی

جاتی کہ ہماری زندگی کس ڈھنگ سے گزر رہی ہے، اس بات کی طرف ذہن نہیں جاتا کہ ہم نے اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے الله تعالیٰ کوناراض کیا ہوا ہے، الله تعالیٰ کو منانے کی ضرورت ہے اور اپنی گناہوں کی زندگی سے توبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں انسان کو بسا اوقات مالی مشکلات پیش آتی ہیں تو کبھی بیماریوں کی صورت میں مصائب سے دو چار ہونا پڑتا ہے، ایسی مشکلات ومصائب میں دنیاوی اسباب اختیار کرنے چاہییں۔اس میں کوئی حرج نہیں ، لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے، کہ آخر مجھے مصائب ومشکلات میں مبتلا کرنے والی ذات صرف الله تعالیٰ کی ہے، اگر میں اس مشکل ومصیبت کے ازالے کے لیے در بدر گھوما ہوں اور ہر اس آدمی کے پاس جس سے ذرہ سی بھی

اس مشکل کی داد رسی کی امید تھی، اس کا دروازہ کھٹکھٹایا، تو کیا میں نے کبھی اس ذات کے سامنے اپنی مشکل او رمصیبت رکھی ہے جس ذات کے علاوہ اور کوئی نہ تکلیف پہنچاسکتا ہے اور نہ تکلیف ہٹا سکتا ہے؟! چناں چہ ہمیں ہر مصیبت وپریشانی میں الله تبارک وتعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور اپنے طرز زندگی پر غور کرنا چاہیے کہ آیا کہیں میری زندگی اس رب کی نافرمانی میں تو نہیں گزر رہی، اگر گناہوں کی زندگی ہو تو اس سے فوراً توبہ کرنی چاہیے۔اور استغفار کے بہترین الفاظ یہ ہیں : استغفراللہ الذی لاالٰہ الا ھوالحی القیوم واتوب الیہ !!!​ اس کو چلتے پھرتے ہر حالت میں پڑھتے رہنا ہے اور کوشش کیجئے کہ پانچ وقت کی نماز پڑھیں اور ہر نماز کے بعد ایک ایک تسبیح

لازمی کیجئے۔ اور کوشش کیجئے کہ ہر وقت باوضور ہئے۔اللہ آپ کا حامی و ناصر ہوجائے گا ۔اور اس کی مدد سے آپ کسی سے کوئی بھی کام کروا سکتے ہیں جب اللہ آپ کا حامی ہوسکتا ہے تو اللہ کسی اور کو بھی آپ کا حامی بنا سکتا ہے اس کی بدولت ۔شکریہ

Leave a Comment