ہمیں اللہ تعالی کا ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہیے،جو تونے دیا ،جو تونے نہیں دیا،اور جو تونے دے کر لے لیا

ہمیں ہر حال میں اللہ ربّ العزت کا شکر ادا کرنا چائیے۔ جو نعمتیں اللہ تعالی نے ہمیں عطا کی ہیں ہم انکا شمار تک نہیں کرسکتے۔ انسان بنانا اور مسلمان گھرانہ میں پیدا کرنا،حضور ﷺ کا امُتی ہونا، عقل سلیم کے ساتھ تمام جسمانی اعضاء دینا، یہ وہ نعمتیں ہیں جسکا شکر ہم تمام عمر سجدہ میں بھی پڑے رہیں پھر بھی ادا نہیں کر سکتے۔ لیکن انسان بڑا جلدباز اور نا شکرا ہے، ذرا سی تکلیف برداشت نہیں ہوتی،

صبر نہیں ہوتا۔تکلیف ، بیماری یا پریشانی کے وقت یہ کہنا شروع کر دیتا ہے کہ’ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے‘ یہ بہت بڑی ناشکری ہے۔ کیا یہ اللہ کا کرم نہیں ہے کہ اس نے ہمیں صحت و تندرستی، مال و جائیداد، عقل و علم، اہل و عیال، عزت و شان ، حسن و وجاہت کے ساتھ زندگی کا اعلی معیار دیا ہے، یہ سب جس اللہ کا دیا ہوا ہے جو ہماری آزمائش کیلئے ہے اگر اللہ اس میں سے کچھ لے لیتا ہے تو نا شکری کیوں ؟ بعض لوگ کچھ نعمتوں پر شکر کرتے ہیں کچھ پر نہیں،اللہ کی شکرگزاری اسکے بندوں پر واجب ہے، جب اللہ تعالی نے حضرت سلیمان ؑ کو بہت سی نعمتیں دیں تو حضرت سلیمانؑ نے اسکا اعتراف ان الفاظ میں کیا، قرآن کی سورۃ النمل آیت ۴۰۔ ’یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں کہ

نا شکری۔ اللہ تعالی کی نعمتوں کو جھٹلانا، ہر کسی سے گلہ شکایت اور بیجا تقاضے کرنا اور اللہ کی نعمتوں کو بلا وجہ چھپانا بھی ناشکری ہے۔ ناشکری کی سزا ہر حال میں ملتی ہے۔ جب انسان کے اندر اللہ کی شکر گزاری پیدا ہوتی ہے تو اسکے اندر عاجزی اور انکساری بھی پیدا ہوتی ہے اور وہ اللہ کے احسانات پر شکریہ کے ساتھ اس کی مخلوق کے ساتھ احسان کرتا ہے اور انسے محبت اور خدمت کا جذبہ اجاگر ہوتا ہے۔ اللہ ہم گناہگارہوں کو ناشکری سے محفوظ رکھے اور ہر حال میں اللہ کی رضا میں راضی رکھے۔ آمین ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ( وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ كَرِیْمٌ(۴۰) )ترجمہ : اور جو شکر کرے تووہ اپنی ذات کیلئے ہی شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب ارشادِ باری تعالیٰ ہے

🙁 وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ كَرِیْمٌ(۴۰) )ترجمہ : اور جو شکر کرے تووہ اپنی ذات کیلئے ہی شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بے پرواہ ہے ، کرم فرمانے والا ہے۔ تفسیر : اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اُس کا شکر ادا کرنا ہم پر حق ہے اور اُس حق کی ادائیگی خدا کو پسند ہے ، جبکہ ناشکری اُسے ناپسند ہے اور یہ عقیدہ بھی ذہن نشین رہے کہ شکر کا فائدہ ہماری ذات کو ہے اور ناشکری کا نقصان بھی ہم ہی کو ہے ، کیونکہ خداوندِ قُدُّوس بے نیاز ہے ، اُسے کسی کے شکر یا ناشکری سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، چنانچہ قرآنِ پاک میں فرمایا : (اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنْكُمْ- وَ لَا یَرْضٰى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَۚ-)ترجمہ : اگر تم ناشکری کرو تو بیشک اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کی ناشکری کو پسند نہیں کرتا۔

ناشکری عقل و نقل دونوں اعتبار سے مَذموم ہے ، نقل کے اعتبار سے یوں کہ قرآن میں فرمایا : (وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(۷))ترجمہ : اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔ (پ13 ، ابراھیم : 7) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) ناشکری کے بد سے بدتر درجوں کے اعتبار سے اِس کی سزا بھی سخت سے سخت ترین ہے جیسے خدا کے وجود ہی کا اِنکار کرنا یعنی دہریت ، خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا یعنی شرک اور خدا کے کسی حکم کا انکار کرنا یعنی کفر ، یہ ناشکری کی سب سے بدتر صورتیں ہیں تو اِن کی سزا بھی سب سے سخت ہے جبکہ اعضاء کو گناہوں میں استعمال کرنا ، پہلی صورتوں یعنی دہریت اور کفر و شرک سے کم تر ہے ، لہٰذا اس کی سزا بھی اِسی کے مطابق ہے۔

ناشکری کا عقلی اعتبار سے مذموم اور شکر کا محبوب ہونا یوں واضح ہے کہ ہر انسان سمجھتا ہے کہ محسِن و مُنعِم کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور یہ ہر انسان کی فطرت میں ہے۔ اسی لئے اگر کوئی اپنے محسن کی ناشکری کرے تو اُسے مذموم سمجھا جاتا ہے۔ اِسی لئے دنیا میں جب کوئی کسی پر احسان کرتا ہے تو ہر مذہب و ملت اور علاقہ و قوم والا اپنی تہذیب و روایات کے مطابق مختلف الفاظ و اعمال کی صورت میں دوسرے کا شکریہ ادا کرتا ہے۔ لوگوں کے احسانات پر اُن کا شکریہ ادا کرنا شریعت کو بھی پسند ہے چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : لَايَشْكُرُ اللہَ مَنْ لَايَشْكُرُ النَّاس ترجمہ : جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔

(سنن ابی داؤد ، 4 / 335 ، حدیث : 4811) اِسی وجہ سے دینِ اسلام میں ماں باپ اور استاد کا شکریہ ادا کرنے کا صراحت سے حکم دیا گیا ہے۔ جب مخلوق کی چند محدود مہربانیوں پر شکریہ ادا کرنا ضروری ہے تو خالقِ کائنات ربُّ العالمین ، اَرْحَمُ الرَّاحِمین کی بے پایاں رحمتوں پر شکر ادا کرنا کس قدر ضروری ہوگا جس کی نعمتوں کا شمار بھی ہمارے بس میں نہیں ہے ، جس نے ظاہری باطنی نعمتوں کی بارشیں ہم پر برسا دیں ، جس کی نعمتوں کے دریا سے ہم سیراب ہورہے ہیں ، جس کی بارگاہ کے سوا کوئی نعمت کہیں سے مل ہی نہیں سکتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَاؕ-) ترجمہ : اور اگر تم اللہ کی نعمتیں گنو تو اُنہیں شمار نہیں کر سکو گے۔

Leave a Comment