ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ دو قسم کے۔۔۔

ہو س اور حوس کی نیت سے ہٹ کر دیکھو۔ عورت سے اچھا دوست کوئی نہیں ۔ ساری دنیا کے “مرد ” اگر اندھے بھی ہوجائیں۔ تب بھی “ کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ عورت کی پوری زندگی کھا پی کر آخر میں کہتا ہے مجبوری ہے تم سے شادی نہیں کرسکتا۔ عورت بھی پھر مرد کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیتی وہ بھی اس کی بیٹی کے لیے تحفہ دے دیتی ہے۔ یعنی اپنے چہرے ک زردی خاموشی اذیت ،د رد کرب اور نم آنکھیں تاکہ مرد جان سکے عورت کیا ہوتی ہے۔

اور جب مرد عورت کو بیٹی کے روپ میں جان لیتا ہے ۔ تب وہ خوف زدہ ہوجاتا ہے کیونکہ اسے کبھی رب کی بات اور کبھی وہ عورت یاد آجاتی ہے۔کہ دنیا میں ہر چیز کا مقافات عمل ہے۔ کسی کے دل میں محبت پیدا کرکے اسے چھوڑدینا اسے ق تل کرنے کے برابر ہوتا ہے کھوئی ہوئی محبت کی یاد بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ کہیں کسی بھی وقت انسان کے دل و دماغ میں چھا جاتی ہے۔ اور پھر آنسو بہائے بغیر اسے اپنی جگہ سے سرکنے نہیں دیتی۔ اب میں بس اتنا ہی چاہتا ہوں کہ جب کوئی میرا نام تمہارے سامنے لے توتمہارا دل اک پل کے لیے رک جائے ۔ تمہاری آنکھیں بھر جائیں اور تمہاری آنکھ سے نکلا ہوا آنسو میر ی

تمہارے ساتھ بتائی ہوئی ہر یاد کو بھگو لے۔ مقافات عمل اٹل ہے دیر ہوسکتی ہے۔ لیکن اس سے بچ نہیں سکتے ۔ جو اذیت تم نے مجھے بخشی ہے وہ تو ووقتی ہے لیکن تمہیں سار ی عمر حساب دینا ہوگا۔ ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ دو قسم کے شوہر بیوی کو کبھی بھی خوش نہیں رکھ سکتے ۔ بیوی ساری عمر پچھتاتی رہتی ہے۔ پہلا وہ جو ہوس کا پجاری ہو۔ دوسرا وہ جو بیوی سے زیادہ دوسری عورت کو اہمیت دیتا ہو۔ جن سے محبت کی جاتی ہے ۔ ان کو اپنی خواہشات کی رسی سے قید نہیں کیا جاتا انہیں آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ انہیں اپنی زندگی کھل کرجینے دی جاتی ہے۔ اور دنیا کے جنگلوں میں اپنی مرضی سے بھٹکنے دیا جاتا ہے ۔ اگر وہ لوٹ کے آجائیں تو ہم محبت میں سچے تھے، اور اگر نہ آئیں تو ہم صرف بد قسمت تھے

Leave a Comment